جراسک پارک سے متاثر سائنس دان کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں 2025 تک دنیا میں ڈائنوسار کی واپسی ممکن ہے۔
سال1993 کی مشہرورِ زمانہ فلم “جراسک پارک” اب تک کی سب سے مشہور فلموں میں سے ایک ہے، جس کی کہانی کروڑوں سال پہلے ختم ہونے والے ڈائنوسار کی دوبارہ تخلیق پر مبنی ہے۔
فلم میں ایک ماہر حیاتیات وسطی امریکا کے ایک جزیرے پر تقریباً مکمل تھیم پارک کا دورہ کرتا ہے، جہاں اسے کچھ بچوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جاتی ہے
لیکن بجلی کی خرابی کے باعث پارک کے کلون شدہ ڈائنوسار چھوٹ ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ انتہائی تباہ کن نکلتا ہے۔
اس سلسلے کی پانچ بلاک بسٹرز کے بعد چھٹی اور آخری قسط “جراسک ورلڈ ڈومینین” 10 جون کو ریلیز ہونے والی ہے۔
یقیناً ڈائنوسارز کے دوبارہ جی اٹھنے یا کلون کئے جانے کی کہانیاں مکمل طور پر فرضی ہیں۔ لیکن ایک ماہر حیاتیات جن سے جراسک کے ڈائریکٹر اسٹیون اسپیلبرگ نے مشورہ کیا اور فرنچائز کے تکنیکی مشیر کے طور پر خدمات حاصل کیں کہتے ہیں مستقبل قریب میں ممکنہ طور پر یہ کہانیاں حقیقت کا روپ دھار سکتی ہیں۔
سال 2015 میں ایک پینل ڈسکشن کا انعقاد کیا گیا تھا جہاں ڈاکٹر جیک ہورنر نے ان معدوم ہوچکی مخلوقات کی ممکنہ واپسی کے بارے میں تبصرے کیے۔
ہارنر کے کام نے ڈاکٹر ایلن گرانٹ کو ہٹ فلم سیریز بنانے کے لیے متاثر کیا، اب انہوں اس امید کا اظہار کیا ہے کہ ٹیکنالوجی 2025 تک ڈائنوسار کو وجود میں لانے کے قابل ہو سکتی ہے۔
ایسا کرنے کے لیے، انہوں نے مرغیوں (ڈائنوسارز کے زندہ آباؤ اجداد) میں جینیاتی تبدیلیاں کر کے ان کی آبائی خصلتوں کو دوبارہ فعال کرنے کا منصوبہ بنایا۔
دوسرے لفظوں میں کہیں تو، انہیں اتنا ہی خوفناک بنانے کی کوشش کی اجرہی ہے جیسا کہ جراسک پارک میں ڈائنو سار دکھائے گئے ہیں۔
انہوں نے وضاحت کی کہ “بلاشبہ یہ پرندے ڈائنوسار ہیں، لہٰذا ہمیں صرف انہیں ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ کچھ زیادہ ہی ڈائنوسار کی طرح نظر آئیں۔ ڈائنوسار کی دم، بازو اور ہاتھ تھے، اور ارتقاء کے ذریعے وہ اپنی دم کھو چکے ہیں، اور ان کے بازو اور ہاتھ پروں میں بدل گئے ہیں۔”
ہارنر نے مزید کہا کہ “دراصل، پروں اور ہاتھ کو دوبارہ بنانا اتنا مشکل نہیں ہے، “چکنوسارس” حقیقت کا روپ دھارنے کے راستے پر ہے۔ دراصل دُم دوبارہ تخلیق کرنا سب سے بڑا منصوبہ ہے۔ لیکن دوسری طرف، ہم حال ہی میں کچھ چیزیں کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں جس نے ہمیں امید دلائی ہے کہ اس میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ پرندے زندہ ڈائنوسار ہیں۔”