دنیا کی مقبول ترین مائیکروبلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر کی مشکلات میں کسی صورت کمی ہوتی نظر نہیں آرہی۔
ایلون مسک کی جانب سے ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی سب سے بڑی ڈیل بھی کچھ عرصے بعد تعطل کا شکارہوگئی۔ اوراب امریکی محکمئہ انصاف کے حالیہ فیصلے نے ٹوئٹر کے مسائل میں مزید اضافہ کردیا ہے۔
امریکی محکمئہ انصاف نے فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی جانب سے دائر دراخواست کی بنیاد پر استعمال کنندگان کا نجی ڈیٹا فروخت کرنے کے الزمات پرسوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹرپر 150 ملین ڈالرکا جُرمانہ لگا دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق امریکا میں صارفین کی پرائیویسی اور حقوق کے لیے کام کرنے والے وفاقی ادارے فیڈرل ٹریڈ کمیشن اورمحکمئہ انصاف نے ٹوئٹرکو قانون سازوں کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی کا موردِ الزام ٹہرایا ہے۔
عدالتی دستاویزات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اپنے استعمال کنندگان کا نجی ڈیٹا (فون نمبرز اورای میل ایڈریسز) مشتہرین کوفراہم نہیں کرے گا۔
تاہم، وفاقی تفتیش کاروں کا اس بابت کہنا ہے کہ ٹوئٹرنے ان قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایڈورٹائزرکو صارفین کا نجی ڈیٹا فروخت کیا۔
عدالتی فیصلے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ ٹوئٹرنے دانستہ طور صارفین کواپنی پرائیویسی اورسیکیورٹی پریکٹس کے حوالے سے اندھیرے میں رکھتے ہوئے ایف ٹی سی 2011 کے احکامات کی سنگین خلاف ورزی کی۔
ٹوئٹرکا زیادہ ترریونیو اشتہارات کی مد میں آتا ہے جس کے لیے ایڈورٹائزرزکو 280 کریکٹرز کے پیغامات یا ٹوئٹ پرپروموشن کرنے کی اجازت فراہم کی جاتی ہے۔۔
فیڈرل ٹریڈ کمیشن کی جانب سے محکمئہ انصاف میں ٹوئٹر کے خلاف دائر درخواست میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر نے 2013 میں اپنے صارفین سے اکاؤنٹ سیکیورٹی کے نام پرفون نمبراور ای میل ایڈریسز مانگنا شروع کردیے تھے۔
تاہم، ٹوئٹرکی جانب سے اس ڈیٹا کو سیکیورٹی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کے بجائے صارفین کواشتہارات کے لیے ہدف بنانے کے لیے استعمال کیا گیا۔
ایف ٹی سی کی چیئرپرسن لینا خان کے مطابق ٹوئٹرکی اس حرکت سے 140 ملین سے زائد صارفین متاثر ہوئے اوراس سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی آمدن میں بے تحاشا اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق امریکا میں ڈیجیٹل صارفین کے حقوق کا تحفظ کرنے کے لیے 2011 میں ایف ٹی سی کے نام سے اس خود مختارادارے کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ٹوئٹرپردسمبر2020 میں بھی یورپ کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشنز ڈیٹاپرائیویسی قوانین کی خلاف ورزی پر 4 لاکھ یوروکا جرمانہ عائد کیا گیا تھا۔
جب کہ جی ڈی پی آر قوانین کے تحت امریکی ٹیکنالوجی کمپنیاں زیرعتاب ہیں کیوں کہ صارفین کے ڈیٹا کی سب سے زیادہ خلاف ورزی بھی گوگل، فیس بک، انسٹاگرام کررہی ہیں۔