مویشیوں پر کیڑے مار ادویات کا چھڑکاؤ کرتے صحت عامہ کے کارکنان خون چوسنے والی چچڑیوں اور پسوؤں کو ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو عراق میں لوگوں کی اموات کا باعث بن رہی ہیں، عراق میں ایک بیماری عام ہوتی جارہی ہے جس میں پہلے متاثرہ شخص شدید بخار میں مبتلا ہوتا ہے اور پھر اس کے جسم سے خون بہنا شروع ہو جاتا ہے، جس کا اختتام موت پر پر ہوتا ہے۔
مکمل حفاظتی کٹس میں ملبوس صحت عامہ کے کارکنوں کی نظر ایک ایسی چیز پر ہے جو عراقی دیہی علاقوں میں عام ہو گئی ہے، یعنی “کریمین کانگو ہیمرج” (CCHF) جو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔
ورڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (عالمی ادارہ برائے صحت) کے مطابق، اس سال عراق میں انسانوں میں سی سی ایچ ایف کے 111 کیسز میں سے 19 اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔
وائرس کی کوئی ویکسین نہیں ہے اور اس کا پھیلاؤ تیزی سے ہوتا ہے، جس کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی طور پر اور خاص طور پر ناک سے شدید خون بہنے لگتا ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق، یہ زیادہ سے زیادہ پانچ میں سے دو معاملات میں موت کا سبب بنتا ہے۔
عراقی صوبہ ذی قار میں صحت کے شعبے سے منسلک ایک اہلکار، حیدر ہنتوچے نے بتایا کہ، “ریکارڈ ہونے والے کیسوں کی تعداد بے مثال ہے۔”
جنوبی عراق میں کاشتکاری کا علاقہ، یہ صوبہ عراق کے تقریباً نصف کیسز کا سبب بنتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پچھلے سالوں میں، ان کیسز کو “ایک ہاتھ کی انگلیوں پر” شمار کیا جا سکتا تھا۔
ٹِک (چچڑی) کے ذریعے منتقل ہونے والے، وائرس کے میزبانوں میں جنگلی اور کھیتی باڑی والے جانور جیسے بھینس، گائے، بکرے اور بھیڑ شامل ہیں، اور یہ سب ذی قار میں عام ہیں۔
ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق “جانور متاثرہ ٹک کے کاٹنے سے متاثر ہو جاتے ہیں۔”
“سی سی ایچ ایف وائرس لوگوں میں یا تو ٹک کے کاٹنے سے یا ذبح کے دوران اور اس کے فوراً بعد متاثرہ جانوروں کے خون یا بافتوں سے رابطے کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔”
اس سال کیسوں میں اضافے نے حکام کو چونکا دیا ہے، کیونکہ 1979 میں عراق میں پہلی بار وائرس کے دستاویزی ہونے کے بعد سے 43 سالوں میں یہ تعداد ریکارڈ شدہ کیسز سے کہیں زیادہ ہے۔
ہنٹوچے کا کہنا ہے کہ ان کے صوبے میں 2021 میں صرف 16 کیسز ریکارڈ کیے گئے جن کے نتیجے میں سات اموات ہوئیں۔ لیکن اس سال ذی قار میں 43 کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جن میں آٹھ اموات بھی شامل ہیں۔
کوویڈ 19 وبائی مرض کے مقابلے میں یہ تعداد اب بھی بہت کم ہے، جہاں عراق میں 25,200 سے زیادہ اموات اور 2.3 ملین کیسز درج ہوئے ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ افریقہ، ایشیا، مشرق وسطیٰ اور بلقان میں وبائی مرض CCHF کی اموات کی شرح 10 سے 40 فیصد کے درمیان ہے۔
عراق میں ڈبلیو ایچ او کے نمائندے احمد زوتین نے کہا کہ ملک میں اس وائرس کے پھیلنے کے بارے میں کئی “مفروضے” ہیں۔
ان میں 2020 اور 2021 میں کوویڈ کے دوران مویشیوں پر چھڑکاؤ کی مہموں کی عدم موجودگی میں ٹک کا پھیلاؤ شامل تھا۔
انہوں نے کہا کہ “ہم اس وباء کا ایک حصہ گلوبل وارمنگ کو قرار دیتے ہیں، جس نے ٹک کے اثر کی مدت کو بڑھا دیا ہے۔”
“لیکن لگتا ہے کہ اموات میں کمی واقع ہو رہی ہے، کیونکہ عراق نے اسپرے کی مہم چلائی تھی جبکہ ہسپتال میں نئے علاج کے “اچھے نتائج” دیکھے گئے۔”
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ چونکہ یہ وائرس “بنیادی طور پر لوگوں میں مویشیوں پر ٹک کے ذریعے منتقل ہوتا ہے”، اس لیے زیادہ تر کیسز کسانوں، مذبح خانے کے کارکنوں اور جانوروں کے ڈاکٹروں میں ہوتے ہیں۔
“انسان سے انسان میں منتقلی متاثرہ افراد کے خون، رطوبتوں، اعضاء یا دیگر جسمانی رطوبتوں کے ساتھ قریبی رابطے کے نتیجے میں ہو سکتی ہے۔”
متاثرہ شخص میں یہ وائرس بے قابو خون بہنے کے ساتھ ساتھ، شدید بخار اور الٹی کا سبب بنتا ہے۔
طبی ماہرین کو خدشہ ہے کہ جولائی میں عید الاضحیٰ کے بعد، جب خاندان روایتی طور پر مہمانوں کو کھانا کھلانے کے لیے ایک جانور کو ذبح کرتے ہیں، اس کے بعد معاملات میں شدید اضافہ ہو سکتا ہے۔
ناصریہ کے ایک ہسپتال میں ہیماٹولوجیکل امراض کے ماہر ڈاکٹر اظہر الاسدی کہتے ہیں کہ، “جانوروں کے ذبیحہ میں اضافے اور گوشت کے ساتھ زیادہ رابطے کی وجہ سے عید کے دوران کیسز میں اضافے کا خدشہ ہے۔”
حکام نے جراثیم کشی کی مہمیں چلائی ہیں اور وہ ان مذبح خانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جو حفظان صحت کے پروٹوکول پر عمل نہیں کرتے۔ کئی صوبوں نے اپنی سرحدوں کے پار مویشیوں کی نقل و حرکت پر بھی پابندی لگا دی ہے۔
جنوب میں واقع شہر نجف کے نزدیک حکام کی طرف سے مذبح خانوں کی نگرانی کی جاتی ہے۔
وہاں کے کارکنوں اور اہلکاروں کے مطابق، وائرس نے گوشت کی کھپت کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
قصاب حامد محسن نے بتایا کہ، “میں ایک دن میں 15 یا 16 جانور ذبح کرتا تھا، اب یہ سات یا آٹھ کے برابر ہے۔”
نجف ویٹرنری ہسپتال کے ڈائریکٹر فارس منصور نے، جو مذبح خانوں کی نگرانی کرتے ہیں ، اس دوران کہا کہ ذبح کے لیے آنے والے مویشیوں کی تعداد معمول کی سطح سے تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ لوگ سرخ گوشت سے خوفزدہ ہیں اور سوچتے ہیں کہ یہ انفیکشن منتقل کر سکتا ہے۔