سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان تین ممالک کے سرکاری دورے کے پہلے مرحلے میں پیر کے روز مصر پہنچ گئے۔ تین برسوں کے دوران یہ ان کا خلیج سے باہر پہلا غیر ملکی دورہ ہے۔
سعودی ولی عہد کا مشرقِ وسطی کے ممالک کا یہ دورہ ایسے وقت ہورہا ہے جب اگلے ماہ امریکی صدر جو بائیڈن اس خطے کا دورہ کرنے والے ہیں۔ وہ اسرائیلی رہنماوں سے ملاقات کے بعد سعودی عرب کے رہنماوں سے بھی ملاقات کریں گے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ولی عہد محمد بن سلمان مصر، اردن اور ترکی کا دورہ کریں گے۔
اس دورے کے دوران اردن اور ترکی کے رہنماوں کے ساتھ بات چیت کے دوران باہمی تعاون اور مشترکہ دلچسپی کے امور پر تبادلہ خیال بھی کریں گے۔
سعودی عرب اور مصر کے درمیان مضبوط تعلقات کی عرب دنیا کے لیے خصوصی اہمیت ہے اور دونوں ممالک تاریخی طور پر ایک دوسرے کو خطے کا اہم اتحادی سمجھتے ہیں۔
فوجی بغاوت کے ذریعہ ڈکٹیٹر سیسی کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد سے سعودی عرب نے مصر کو اربوں ڈالر کی مالی امداد فراہم کی ہے۔ امید کی جارہی ہے کہ محمد بن سلمان کے اس دورے کے دوران سعودی کمپنیاں مصر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کا اعلان کریں گی۔ یوکرین کی جنگ کی وجہ سے مصر کی معیشت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ولی عہد محمد بن سلمان منگل کے روز ہی عمان روانہ ہوجائیں گے جہاں وہ شاہ عبداللہ کے ساتھ بات چیت کریں گے۔
سفارتی ذرائع کے مطابق سعودی ولی عہد اردن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ وہ اردن کی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے مالی امداد کا وعدہ بھی کرسکتے ہیں۔
سنہ 2018 میں سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل اور کووڈ انیس کی وبا کے بعد سے ولی عہد کا خلیج کے باہر یہ پہلا دورہ ہے۔انہوں نے سن 2018میں مصر اور 2019میں جاپان کا دورہ کیا تھا۔
استنبول کے سعودی سفارت خانے میں خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب کے واشنگٹن اور انقرہ کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے تھےتاہم، ترک صدر رجب طیب اردوان نے خاشقجی کے قتل کے مقدمے کو بند کرکے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو استوار کرنے کا عندیہ دیا تھا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب ترکی کو اقتصادی پریشانیوں سے نکالنے میں مدد کرسکتا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران پہلی مرتبہ اپریل میں سعودی عرب کا دورہ کرنے والے اردوآن نے کہا کہ وہ بدھ کے روز ولی عہد محمد بن سلمان کی میزبانی کریں گے۔
ایک سینئر ترک عہدیدار کا کہنا تھا کہ ایک نئے دور کا آغاز ہوگا اور تعلقات مکمل طورپر معمول پر آجائیں گے۔ اس دورے کے دوران توانائی، معیشت اور سکیورٹی سمیت دیگر شعبوں میں معاہدے ہونے کی امید ہے۔
عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ ولی عہد کا مذکورہ بالا دورہ نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ خطے کی بدلتی سیاست اور ترکی سعودی عرب کے تعلقات میں موجود سرد مہری کا خاتمہ خوش آئند ہے۔ طاقت کے بدلتے ہوئے مرکز کے اس دور میں امت کے ان دو بڑے ممالک کے درمیان تعلقات معمول پر آنا اسلامی ممالک کے لیے نہایت خوش کن ہے۔