گزشتہ برس کے مقابلے میں اس برس مئی تک روس سے چین کو خام تیل کی برآمدات میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے، اس طرح سعودی عرب کی بجائے روس چین کو تیل فراہم کرنے والا سب سے بڑا ملک بن گیا ہے۔ کورونا پابندیوں اور معیشت میں سست روی کے سبب مانگ کم ہونے کے باوجود چین نے روسی تیل کی دھڑا دھڑ خریداری کی ہے۔
چینی کمپنیوں نے جن میں سائنوپیک اور ژینوا آئل بھی شامل ہیں، حالیہ مہینوں کے دوران بھاری مقدار میں رعایتی نرخوں پر روسی خام تیل خریدا ہے۔ چینی جنرل ایڈمنسٹریشن آف کسٹمز کے ڈیٹا کے مطابق گزشتہ ماہ 8.42 ملین ٹن خام تیل برآمد کیا گیا تھا۔ اس کے مقابلے میں چین نے سعودی عرب سے 7.82 ملین ٹن خام تیل خریدا۔ یوں سعودی عرب جو چین کو سب سے زیادہ تیل برآمد کرتا تھا دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔
صرف چین نے ہی اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ بھارت بھی روس سے خام تیل کی خریداری میں پیش پیش ہے جس سے یوکرین جنگ کے بعد پیدا ہونے والے خدشے کے برعکس روسی آمدنی زیادہ متاثر نہیں ہوئی۔
سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر نامی تھنک ٹینک نے گزشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ یوکرین جنگ کے پہلے 100 روز میں خام تیل کی برآمدات سے روس کو تقریباً 100 بلین ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ اس میں سے یورپی یونین کی درآمدات 61 فیصد رہی جس کی مالیت 59 بلین ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ تاہم روس کو تیل اور گیس کی برآمد سے ہونے والی مجموعی آمدنی میں کمی واقع ہو رہی ہے جو مارچ میں ایک بلین ڈالر یومیہ سے زائد تھی۔
دوسری جانب یوکرین جنگ کے ابتدائی 100 دنوں کے اخراجات روس کی آمدن سے کہیں زیادہ ہیں جو سینٹر فار ریسرچ آن انرجی اینڈ کلین ایئر کے اندازے کے مطابق 876 ملین ڈالر یومیہ رہے ہیں۔
مارچ میں امریکا اور برطانیہ نے اعلان کیا تھا کہ وہ روسی تیل پر پابندی عائد کر دیں گے جبکہ یورپ کا کہنا تھا کہ وہ روسی گیس پر انحصار کم کرنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے۔ ذرائع توانائی کی درآمدات روسی آمدن کا بنیادی ذریعہ ہیں تاہم روس پر پابندیوں کا اثر خود مغربی صارفین پر بھی پڑ رہا ہے۔