مہنگائی گزشتہ چالیس برسوں کی بلند ترین سطح پر ہے۔ نہ صرف امریکا بلکہ دنیا بھر کی اقتصادی منڈیاں لڑ کھڑا رہی ہیں۔ امریکی معیشت رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں ہی سُکڑنا شروع ہو چکی ہے۔
امریکی اقتصادی منڈی ابھی دو برس پہلے ہی گزشتہ عالمی معاشی بحران سے بمشکل نکل پائی تھی۔ 15 جون کو امریکا کے مرکزی بینک فیڈرل ریزرو نے افراط زر پر قابو پانے کے لیے بنیادی شرح سود میں تین چوتھائی اضافہ کر دیا ہے جو گزشتہ تین عشروں میں سب سے زیادہ ہے۔ مستقبل میں اس شرح میں مزید اضافے کا اشارہ بھی دیا گیا ہے۔
اقتصادی ماہرین کو یہی خدشات درپیش ہیں کہ فیڈرل ریزرو کی شرح سود میں اضافے کی پالیسی سے معیشت کمزور ہو سکتی ہے تاہم زیادہ تر ماہرین اقتصادیات مستقبل قریب میں مزید مندی کا رجحان نہیں دیکھ رہے۔ ماہرین کے مطابق 2008ء کے مالیاتی بحران کے برعکس اس وقت امریکی خاندان بہتر مالی حالت میں ہیں۔
زیادہ شرح سود سے اُن شعبوں میں پیسہ کم خرچ ہوتا ہے جہاں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔ شرح سود زیادہ ہو تو صارفین بینکوں سے قرض لینے سے ہچکچاتے ہیں۔ اپریل میں فکسڈ مورٹگیج میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں گھروں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔
امریکی اقتصادی تحقیقاتی ادارے ہائی فریکوئنسی اکنامکس کی چیف اکانومسٹ روبیلہ فاروقی کے مطابق اس وقت امریکی اعداد و شمار میں کوئی ایک بھی چیز ایسی نہیں جو فوری کساد بازاری کی طرف اشارہ کرے تاہم معیشت کو مشکلات کا سامنا ضرور ہے۔ ایسی علامات ہیں جو مستقبل میں کساد بازاری کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہیں۔
دوسری جانب مہنگائی فیڈرل ریزرو بینک کے اندازوں سے بھی کہیں زیادہ ہوئی ہے اور یہ مستقل بھی ہے۔ روس کے یوکرین پر حملے نے بھی عالمی سطح پر خوراک اور توانائی کی قیمتوں میں اضافے کی رفتار بڑھا دی ہے جبکہ کورونا وبا کے سبب چین میں سخت لاک ڈاؤن سے سپلائی چین بھی متاثر ہوئی ہے۔