طالبان کی جانب سے بے حجاب خواتین کو جانوروں سے تشبیہ دے دی گئی ہے۔
طالبان کی مذہبی پولیس کی جانب سے جنوبی افغان شہر قندھار میں پوسٹرز آویزاں کیے گئے ہیں، جس میں کہا گیا ہے کہ وہ مسلمان خواتین جو اسلامی حجاب نہیں پہنتیں اور اپنے جسم کو مکمل طور پر نہیں ڈھانپتیں، جانوروں کی طرح نظر آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اگست میں اقتدار پر قابض ہونے کے بعد سے طالبان نے افغان خواتین پر سخت پابندیاں عائد کر دی ہیں۔
مئی میں ملک کے سپریم لیڈر اور طالبان کے سربراہ ہیبت اللہ اخوندزادہ نے ایک فرمان منظور کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ خواتین کو عام طور پر گھر میں رہنا چاہیے۔
خواتین کو حکم دیا گیا تھا کہ اگر انہیں عوام میں باہر جانے کی ضرورت ہو تو وہ اپنے چہروں سمیت خود کو مکمل طور پر ڈھانپیں۔
اس ہفتے، طالبان کی وزارت برائے فروغِ فضیلت اور برائی کی روک تھام، جو گروپ کی جانب سے اسلام کو سختی سے نافذ کرتی ہے، نے قندھار بھر میں پوسٹرز لگائے ہیں، جس میں برقعوں کی تصاویر دکھائی گئی ہیں، یہ لباس کی ایک قسم ہے جو عورت کے جسم کو سر سے پاؤں تک ڈھانپتی ہے۔
قندھار کے بہت سے کیفے اور دکانوں کے ساتھ ساتھ اشتہاری ہورڈنگز پر چسپاں پوسٹرز میں کہا گیا کہ “مسلم خواتین جو حجاب نہیں پہنتی ہیں وہ جانوروں کی طرح نظر آنے کی کوشش کر رہی ہیں۔”
طالبان کے راج میں اور کس چیز پر پابندی ہے؟
پوسٹرز میں کہا گیا کہ مختصر، چست اور شفاف لباس پہننا بھی اخوندزادہ کے فرمان کے خلاف تھا۔
دارالحکومت کابل میں وزارت کے ترجمان سے تبصرے کے لیے رابطہ نہیں ہو سکا، لیکن ایک اعلیٰ مقامی اہلکار نے تصدیق کی کہ پوسٹرز لگائے گئے تھے۔
قندھار میں وزارت کے سربراہ عبدالرحمن طیبی نے اے ایف پی کو بتایا کہ، “ہم نے یہ پوسٹرز لگائے ہیں اور وہ خواتین جن کے چہرے (عوام میں) نہیں ڈھانپے گئے ، ہم ان کے اہل خانہ کو مطلع کریں گے اور حکم نامے کے مطابق اقدامات کریں گے۔”
اخوندزادہ کے حکم نامے میں حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ان خواتین کے مرد رشتہ داروں کو جو اس کی تعمیل نہیں کرتے تنبیہ کریں اور انہیں سرکاری ملازمتوں سے معطل کر دیں۔
کابل سے باہر برقع، جس کا پہننا طالبان کے پہلے دور اقتدار میں خواتین کے لیے لازمی تھا، عام ہے۔
بدھ کے روز، اقوام متحدہ کے حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ نے اسلام پسند حکومت کو خواتین پر “ادارہ جاتی منظم جبر” کے لیے تنقید کا نشانہ بنایا۔
اقتدار میں واپس آنے کے بعد، طالبان نے 1996 سے 2001 تک نافذ کیے گئے اپنے سابقہ سخت نظامِ حکمرانی کے نرم ورژن کا وعدہ کیا تھا۔
لیکن اگست کے بعد سے خواتین پر بہت سی پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔
دسیوں ہزار لڑکیوں کو سیکنڈری اسکولوں سے باہر کردیا گیا ہے، جب کہ خواتین کو بہت سی سرکاری ملازمتوں میں واپس آنے سے روک دیا گیا ہے۔
خواتین کے اکیلے سفر کرنے پر بھی پابندی عائد کر دی گئی ہے اور وہ صرف اُن دنوں دارالحکومت میں عوامی پارکوں کا دورہ کر سکتی ہیں جب مردوں کو اجازت نہ ہو۔