عدالتی فیصلے کے بعد حکومتِ برطانیہ نے بھی جولیان اسانج کو امریکا کے حوالے کرنے کے فیصلے کی منظوری دے دی تاہم اسانج اس فیصلے کے خلاف 14 روز میں اپیل کر سکتے ہیں۔ ان کے وکلاء کو خدشہ ہے کہ امریکا میں انہیں 175 سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔
برطانوی وزیر داخلہ پریتی پاٹیل نے گزشتہ روز اسانج کی امریکا حوالگی کے فیصلے پر دستخط کر دیے۔ ایک برطانوی عدالت نے اپریل میں وکی لیکس کے بانی کو ملک بدر کرکے امریکا کے حوالے کرنے کی منظوری دیتے ہوئے اس بارے میں حتمی فیصلہ حکومتی صوابدید پر چھوڑ دیا تھا۔
وزارت داخلہ کے ایک بیان میں کہا گیا کہ برطانوی عدالتوں نے اسانج کی امریکا حوالگی کے عمل کو جابرانہ یا غیرمنصفانہ نہیں پایا، امریکا میں ان کے ساتھ مناسب سلوک کیا جائے گا۔ یاد رہے کہ امریکی فوج کی خفیہ معلومات افشا کرنے پر اسانج کے خلاف جاسوسی کے 17 اور کمپیوٹر کے غلط استعمال کے مقدمات قائم ہیں۔
امریکی استغاثہ کا کہنا ہے کہ جولیان اسانج نے غیرقانونی طور پر سفارتی خط و کتابت اور خفیہ فائلیں چوری کرنے میں امریکی فوج میں خفیہ معلومات کی ایک تجزیہ کار چیلسی میننگ کی مدد کی تھی۔ یہ معلومات بعد میں وکی لیکس نے اپنی ویب سائٹ پر جاری کی تھیں۔
صحافتی اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے برطانوی حکومت سے اسانج کی امریکا حوالگی کی مخالفت کی ہے۔ 50 سالہ اسانج کے حامیوں اور وکلاء کا مؤقف ہے کہ اسانج کے خلاف مقدمے کے محرکات سیاسی ہیں اور وہ صحافی کی حیثیت سے عراق اور افغانستان میں امریکی فوج کے غلط کاموں کو بے نقاب کرنے والی دستاویزات شائع کرنے پر امریکی آئین کے مطابق تحفظ کے حقدار ہیں۔
اسانج ایک اور مقدمے میں ضمانت کے دوران بھاگنے پر گرفتار ہوئے اور 2019ء سے بیل مارش ہائی سکیورٹی جیل لندن میں قید ہیں۔ اس سے قبل اسانج نے زیادتی اور جنسی حملے کے الزامات میں سوئیڈن حوالگی سے بچنے کے لیے لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں سات سال تک پناہ لیے رکھی تھی۔