افغان صحافیوں کے مطابق یہ میڈیا ادارے طالبان کی جانب سے عائد کردہ سنسر شپ، صحافیوں کیخلاف پیش آئے مبینہ تشدد کے واقعات اور مالی مشکلات کی وجہ سے بند ہوئے ہیں۔میڈیا اداروں کی بندش کی وجہ سے خواتین صحافی کچھ زیادہ ہی متاثر ہوئی ہیں اور اُن میں سے بیشتر خواتین اب صرف گھروں تک ہی محدود ہیں تاہم بڑی تعداد میں مرد صحافی بھی بیروزگار ہوئے ہیں۔سوشل میڈیا پر اس وقت ایک افغان ٹی وی اینکر موسیٰ محمدی کی تصویر وائرل ہورہی ہے، جس میں وہ سڑک کنارے سموسے بیچتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔موسیٰ محمدی برسوں سے میڈیا کے شعبے کا حصہ تھے تاہم افغانستان میں سنگین معاشی صورتحال کی وجہ سے وہ اپنی روزمرہ ضرورتوں کیلئے سموسے بیچ رہے ہیں۔افغان صحافی بلال سروری نے وائرل تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ طالبان کے دور حکومت میں مختلف پیشوں کے ملازمین بیروزگار ہوگئے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کچھ خواتین اساتذہ منہ ڈھانپ کر بھیک مانگتی ہیں۔وائرل تصویر نے افغان نیشنل ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے ڈائریکٹر جنرل احمد اللہ واثق کی توجہ بھی حاصل کی۔احمد اللہ واثق نے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ وہ سابق ٹی وی اینکر اور رپورٹر کو اپنے محکمے میں تعینات کریں گے، ہمیں تمام افغان پیشہ ور افراد کی ضرورت ہے۔واضح رہے کہ گزشتہ ماہ افغان طالبان نے خواتین ٹی وی میزبانوں اور اسکرین پر آنیوالی دیگر خواتین کیلئے چہرے کو ڈھانپنے کا حکم بھی دیدیا تھا۔