
امریکہ کی بھارت میں بڑھتے اسلامو فوبیا کی مذمت
امریکہ نے بھارت میں بی جے پی رہنماؤں کے اشتعال انگیز بیانات کی مذمت کردی ہے۔
جمعرات کو امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے اپنی معمول کی پریس بریفنگ کرتے ہوئے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہم بی جے پی آفیشلز کی جانب سے جارحانہ بیانات کی مذمت کرتے ہیں۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق اور مذہبی آزادی کے معاملے پر بھارتی حکام سے رابطے میں ہیں، انسانی حقوق کے احترام کو فروغ دینے کیلئے بھارت کی حوصلہ افزائی کریں گے۔
نیڈ پرائس نے کہا کہ وزیر خارجہ ٹونی بلنکن ان معاملات پر بھارتی حکام سے بات کرچکے ہیں۔ انہوں نے دورہ انڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکی اور بھارتی عوام انسانی وقار، برابر مواقعوں اور مذہبی آزادیوں کے معاملے میں ایک جیسی سوچ کے حامل ہیں۔
پریس بریفنگ کے دوران پاکستانی صحافی نے نیڈ پرائس سے سوال کیا کہ بھارت بڑی مقدار میں روس سے تیل خرید رہا ہے، کیا آپ کو تشویش ہے؟
پاکستانی صحافی کا جواب دیتے ہوئے ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا تھا کہ بھارت سے اس معاملے پر متعدد مرتبہ گفتگو ہوئی ہے، ماسکو کے ساتھ ہر ملک کا اپنا تعلق ہے۔
پاکستانی صحافی نے ان سے ایک اور سوال کیا کہ موجودہ پاکستانی حکومت کے ساتھ کیا امریکہ کے رابطے ہورہے ہیں جس پر ان کا کہنا تھا کہ روس کا یوکرین پر حملہ بھی پاک امریکہ وزرائے خارجہ کی گفتگو کا حصہ رہا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کے ساتھ شراکت داری کو بڑھانے کیلئے مشترکہ مفادات پر کام کر رہے ہیں۔
متعلقہ خبر پڑھیں: بھارت مسلمانوں کے خلاف جاری بدترین کریک ڈاؤن ختم کرے، ایمنسٹی انٹرنیشنل
واضح رہے کہ بھارت کی حکمراں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز تبصرے کے بعد انڈین مسلمانوں میں شدید اشتعال پیدا ہوگیا تھا۔
ان گستاخانہ تبصروں کے بعد نہ صرف بھارت میں مظاہرے شروع ہو ئے بلکہ مسلمان ممالک نے بھی اس کی شدید مذمت کی تھی۔
بعد ازاں بی جے پی نے ان دو ترجمانوں میں سے ایک کو پارٹی سے برخاست جبکہ دوسری کی رکنیت معطل کرتے ہوئے کہا تھا کہ پارٹی کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔
دوسری جانب بھارت کی ریاست اترپردیش کے کئی شہروں میں 10 جون کو ہونے والے مظاہرے پُرتشدد بھی ہو گئے تھے جبکہ اس دوران لگ بھگ 400 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔
بھارت میں احتجاجی مظاہروں میں شرکت کرنے والے کچھ مسلمانوں کے گھروں کو ’غیرقانونی‘ قرار دے کر حکام کی جانب سے مسمار بھی کیا گیا ہے۔
مسلمانوں کی املاک کی مسمارگی کو بھارتی حکومت کے ناقدین ‘بلڈوزر جسٹس‘ قرار دیتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اس کا مقصد اپنے حق کے لیے آواز اٹھانے والوں کو سزا دینا ہے۔