برسوں پرانے مقدمے کا فیصلہ، اسرائیلی عدالت نے 1200 فلسطینیوں کو بے دخل کردیا

19

برسوں پرانے مقدمے کا فیصلہ، اسرائیلی عدالت نے 1200 فلسطینیوں کو بے دخل کردیا

برسوں پرانے مقدمے کا فیصلہ، اسرائیلی عدالت نے 1200 فلسطینیوں کو بے دخل کردیا

فلسطینی شہریوں کو 1967ء کے بعد ایک ہی وقت میں سب سے بڑی نقل مکانی کے چیلنج کا سامنا ہو گا۔ یہ صورتحال اسرائیلی عدالت کے ایک فیصلے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہے جو اس نے اسرائیلی قابض اتھارٹی کی آشاوں کو پورا کرنے کے لیے دیا ہے۔

عدالت میں یہ معاملہ کئی سال سے زیر التوا چلا آ رہا تھا لیکن اب فیصلہ آیا ہے تو مقامی عدالت نے لوگوں کے خلاف فیصلہ سناتے ہوئے انہیں جگہ کو قابض اسرائیلی اتھارٹی کے حوالے کرنے کا کہہ دیا ہے جبکہ اقوم متحدہ اور یورپی یونین کی طرف سے عدالتی فیصلے کی مذمت کی جارہی ہے۔

عام طور پر اسرائیلی عدالتوں کا فلسطینیوں کے خلاف اور اسرائیلی اتھارٹی کے حق میں ہی فیصلے کرنے کا رجحان ظاہر ہوتا ہے۔ اس فیصلے سے پہلے بھی مقبوضہ علاقوں کے نسل در نسل رہاشی مقامی فلسطینیوں کو لمبی قانونی جنگ لڑنا پڑی مگر فیصلہ قابض اسرائیلی اتھارٹی کے حق میں ہی آیا۔

اس فیصلے پر عمل درآمد کی صورت میں مقبوضہ مغربی کنارے، مسافر ایطا وغیرہ کے تقریبا 1200 مقامی فلسطینیوں کو اپنے گھر بار اور آبائی جگہیں چھوڑنا پڑیں گی۔ خیال رہے یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا جب امریکی نائب وزیر خارجہ کی بھی اسرائیلی دورے پر آمد آمد تھی۔

تام فیصلے سے متاثرہ فلسطینی فوری طور پر اپنے گھروں کو چھوڑنے سے بچنے کی کوئی صورت بنتی دیکھنا چاہتے ہیں۔ الفخیت کی رہائشی ودہ ایوب ابو سبھا نے کہا اسرائیلی اتھارٹی ہماری جگہ کو نئی یہودی بستیوں کی تعمیر کے لیے خالی کرانا چاہتی ہے۔ واضح رہے ودہ ایوب الفخیت کے اس علاقے کی رہائشی ہیں جو فلسطینی چرواہوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ ان کا اس زمین کے ساتھ قدیمی تعلق ہے۔ ودہ ایوب کا دو ٹوک کہنا ہے ہم اپنے گھر نہیں چھوڑیں گے۔

مزید پڑھیں:  چاغی: تارکین وطن کی گاڑی کو حادثے میں6 افراد جاں بحق

یاد رہے 1980 میں اسرائیل نے اس علاقے کو ایک ملٹری زون قرار دیا اور اس میں فائرنگ زون 918 قائم کیا تھا۔ عدالت میں اسرائیلی قابض اتھارٹی نے موقف پیش کیا ہے کہ 7400 ایکڑ پر مشتمل یہ وسیع قطعہ اراضی اسرائیل اور مغربی کنارے کی باونڈری پر ہونے کی وجہ سے بڑا حساس اہمیت کا حامل ہے۔ فوجیوں کی تربیت کے لیے بھی یہ بہت اہم ہے جبکہ فلسطینی چرواہے تو محض جانور چرانے کے لیے آتے ہیں۔

ابو سبھا نے اس فیصلے پر بات کرتے ہوئے بھرائی ہوئی آواز میں کہا یہ سال ہمارے لیے بہت صدمے کا سال بن گیا ہے۔ غمزدہ لہجے میں ابوسبھا جب یہ بات کہہ رہی تھیں تو وہ چند بچے کچے خیموں میں سے ایک میں بیٹھی تھیں جہاں ایک چھوٹے بلب کی مدہم روشنی جیسے امید کے کم ہوجانے کی اطلاع دے رہی تھی۔

اس علاقے میں رہنے والے قدیمی فلسطینی باشندے روایتی طور پر پہاڑی غاروں میں رہتے تھے۔ مگر حالیہ دو عشروں سے انہوں نے چھوٹے کمروں کی تعمیرات کر کے بھی رہنا شروع کر دیا ہے۔ لیکن اسرائیلی قابض اتھارٹی ان مکانات کو مسمار کرنے کی کوشش میں لگی رہتی ہے۔ اب تو قابض اسرائیلی اتھارٹی کو ان کی عدالت نے بھی حمایت دے دی ہے۔

اسرائیلی عدالت نے قابض اسرائیلی اتھارٹی کے حق میں دیے گئے اپنے فیصلے میں فلسطینیوں کے خلاف لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے آپ کو یہاں کا رہائشی ثابت نہیں کر سکے ہیں۔

یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے اسرائیلی فیصلے کی مذمت کی ہے اور اسرائیلی قابض اتھارٹی کو لوگوں کے گھر مسمار کرنے سے منع کیا ہے۔

مزید پڑھیں:  جنگِ عظیم دوم میں تباہ ہونے والا بمبار طیارہ 80 سال بعد دریافت

یورپی یونین کے نمائندے نے کہا فوجی زون بنانے کا معاملہ لوگوں کو ان کی جگہ سے محروم اور گھروں سے بے گھر کرنے کا کافی جواز نہیں ہو سکتا جبکہ ایرل شیرون نے بطور وزیر مقامی فلسطینیوں کو ان کی جگہوں سے بے دخل کرنے کے لیے فوجی زون کو پھیلانے کا کہنا بھی ریکارڈ پر ہے۔

دوسری جانب اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ اسرائیلی اتھارٹیز فلسطینی شہریوں کو تعمیرات کی اجازت دینے سے انکار کرتی رہی ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.