غیر سرکاری تنظیم کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینی سرزمین پر سخت ناکہ بندی کے سبب غزہ کے ہر پانچ میں سے چار بچے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق برطانیہ کی (این جی او) سیو دی چلڈرن نے کہا کہ غزہ میں بچے جذباتی پریشانی کا شکار ہیں۔
ٹریپڈ کے عنوان سے جاری کردہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ غزہ کے بچوں کی ذہنی صحت مسلسل بگڑ رہی ہے۔ 2018 کے بعد سے ذہنی دباؤ، غم اور خوف کی علامات کی تعداد 55 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد ہو گئی ہے۔
سیو دی چلڈرن کے مقبوضہ فلسطین کے ڈائریکٹر جیسن لی نے کہا کہ ہم نے جن بچوں سے اس رپورٹ کے لیے بات کی تو وہ خوف، پریشانی، اداسی اور غم کی مستقل حالت میں رہنے، تشدد کے آئندہ وقت کا انتظار کرتے نظر آئے
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان بچوں کی تکلیف کے جسمانی ثبوت جیسا کے بستر بھیگنا، بولنے کی صلاحیت یا بنیادی کاموں کو مکمل نہ کرنا حیران کن ہے جس پر بین الاقوامی برادری کو ایک تشویشناک صورتحال کے طور پر کام کرنا چاہیے۔
واضح رہے، غزہ کی 2 کروڑ 10 لاکھ آبادی کا تقریباً نصف بچوں پر مشتمل ہیں۔
دوسری جانب، اسرائیل کا مؤقف ہے کہ حماس کی کارروائیوں سے اپنے شہریوں کو بچانے کے لیے یہ ناکہ بندی ضروری ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کا ناکہ بندی کے موقع پر ایک بیان میں کہا کہ اسرائیل نے مصر کی مدد سے غزہ کو ایک کھلی فضا والی جیل میں تبدیل کردیا ہے۔نوجوانوں کو ناکہ بندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ ناکہ بندی سے پہلے غزہ کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔
یاد رہے، اسرائیل 2007 سے حماس کے ساتھ چار جنگیں لڑ چکا ہے جس میں سے ایک جنگ حال ہی میں مئی 2021 میں ہوئی تھی۔گزشتہ 12 ماہ کے دوران اسرائیل نے یہودی ریاست کے اندر بہتر معاوضے کی نوکریوں کی تلاش کرنے والے غزہ کے باشندوں کو مزید ورک پرمٹ دیے ہیں اور علاقے کے اندر اور باہر سامان کے آمد و رفت پر کچھ پابندیوں میں بھی نرمی کی ہے۔