بھارت کے متعدد شہروں میں مسلمانوں کے مکانات اور کاروباری عمارات گرائے جانے کے خلاف احتجاج پھوٹ پڑے ہیں۔ ناقدین حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے ان اقدامات کو ’بلڈوزر جسٹس‘ قرار دے رہے ہیں۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق اتوار کو حکومتی اہلکاروں نے بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیشں میں جاوید احمد نامی شخص کا گھر بلڈوزر سے مسمار کر دیا تھا۔ان پر یہ الزام عائد کیا گیا کہ ان کا مسلمانوں کے اس احتجاج سے تعلق ہے جو جمعے کو پرتشدد مظاہرے میں بدل گیا تھا۔ ہفتے کو جاوید احمد کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔
گذشتہ ہفتے ریاست اتر پردیش کے دو دیگر شہروں میں بھی احتجاج کرنے والے مظاہرین کی املاک کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار کیا گیا۔
منگل کو بھارتی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے سابق ججوں اور وکلا سمیت 12 نمایاں شخصیات نے چیف جسٹس کو ان املاک کی مسمارگی کا نوٹس لینے کے لیے ایک خط لکھا ہے۔خط میں ان اقدامات کو غیرقانونی اور ایک قسم کی ماورائے قانون اجتماعی سزا قرار دیا ہے اس کے ساتھ ساتھ اتر پردیش کی حکومت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ مظاہرین کے خلاف تشدد کے استعمال کے ذریعے اختلافی آوازوں کو دبا رہی ہے۔
واضح رہے، بھارت میں مسلمانوں کے خلاف ہندو قوم پرستوں کی جانب سے تشدد کے واقعات میں 2014 میں اس وقت تیزی آنا شروع ہوئی جب نریندر مودی پہلی مرتبہ وزیراعظم منتخب ہوئے۔
یاد رہے، بھارت کی حکمراں قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو ترجمانوں کی جانب سے پیغمبر اسلام کے خلاف توہین آمیز تبصرے کے بعد بھارتی مسلمانوں میں شدید اشتعال پیدا ہوا۔ نے ان دو ترجمانوں میں سے ایک کو پارٹی سے برخاست جبکہ دوسری کی رکنیت معطل کر دی تھی اور بیان جاری کیا تھا کہ ’پارٹی کسی بھی مذہبی شخصیت کی توہین سے قطعی لاتعلقی کا اظہار کرتی ہے۔‘