انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھارت سے مسلمانوں کے خلاف بدترین کریک ڈاؤن ختم کرنے کی اپیل کی ہے۔ بھارتی مسلمان پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے بارے میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دو عہدیداروں کے توہین آمیز تبصروں کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔
گزشتہ ہفتے ان تبصروں کے خلاف ملک گیر مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ سے دو مسلم نوجوان جاں بحق ہوگئے تھے اور سینکڑوں کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بھارتی حکام نے ان مسلم مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن ہی نہیں کیا بلکہ ان کے گھروں کو بلڈوزر کے ذریعے مسمار بھی کر دیا ہے جن کی وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شیئر کی گئی ہیں۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کے نمائندے عکار پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ حکام چن چن کر اور بے رحمی سے ان مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کر رہے ہیں جو بولنے کی جرآت کرتے ہیں۔ مسلمانوں کو تاریخ کے بدترین امتیازی سلوک کا سامنا ہے۔ ان کے خلاف طاقت کا بے تحاشا استعمال، گرفتاریاں اور گھروں کی مسماری انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی مکمل خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے گرفتار مظاہرین کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
ریاست اترپردیش میں گزشتہ ہفتے کے دوران احتجاج کرنے کے الزام میں 300 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ وزیراعلیٰ یوگی آدتیا ناتھ ہندو قوم پرست سیاستدانوں میں سے ہیں جو ملک کی 25 کروڑ مسلم اقلیت کے خلاف فرقہ وارانہ بیان بازی کے لیے انتہائی بدنام ہیں۔ انہوں نے بارہا حکام پر زور دیا ہے کہ وہ جرائم کے الزام میں مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کر دیں۔
2014ء میں نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے بھارتی مسلمانوں کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف حالیہ انتقامی کارروائیوں نے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ اب پولیس کی سرپرستی اور حفاظت میں حکام اور ہندو قوم پرست احتجاجی مظاہرین کے مکانات کو بھی مسمار کر رہے ہیں اور کھلے عام میڈیا نمائندوں کے سامنے انہیں تشدد کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وزیراعظم مودی کی جماعت بی جے پی اس خیال کو فروغ دے رہی ہے کہ بھارت صرف ہندوؤں کا ملک ہے۔