جرمنی کے وزیر برائے اقتصادیات نے “بزنس جائنٹس” کے خلاف قوانین کو سخت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اجارہ داری کے خاتمے سے متعلق حکام کو بااختیار بنانےکے لیے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے ذریعے وہ اشیاء کی یکساں قیمتیں مقرر کرکے منافع خوری کرنے والی کمپنیوں کو بروقت روک سکیں گے۔
مذکورہ بالا اقدام جرمن صارفین کے لیے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کی حکومتی کوششوں پر بڑھتی ہوئی تنقید کے بعد کیا گیا ہے۔
یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کے آغاز کے بعد سے دنیا بھر کی طرح جرمنی میں بھی گیس کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ گاڑیوں کے لیے ایندھن فراہم کرنے والی تمام پانچ بڑی کمپنیوں نے ایندھن کی قیمتوں میں یکساں طور پر اضافہ کیا ہے۔
اس تناظر میں جرمن حکومت کی طرف سے یکم جون سے تین مہینوں کے لیے پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکسوں میں کمی کے باوجود اس کا فائدہ عام صارفین کو نہیں پہنچ سکا۔
ایندھن کی قمیتوں میں تین ماہ کی ٹیکس کٹوتی پر جرمن ٹیکس دہندگان کی تین ارب ڈالر سے زائد کی رقم خرچ کی جائے گی اور اس کے نتیجے میں اصولی طور پر گیس سٹیشنوں پر قیمتوں میں فی لیٹر 0.37 ڈالر تک کی کمی آنی چاہیے تھی تاہم یقینی طور پر ایسا نہیں ہوا۔
جرمن وزیر اقتصادیات سمیت بہت سارے ناقدین نے جرمنی میں تیل کی بڑی کمپنیوں پر ٹیکس کی مالی اعانت سے فائدہ اٹھانے کا الزام لگایا ہے۔
واضح رہے، ایندھن کی قمیتوں پر ٹیکس چھوٹ دینے کو اب ایک برا فیصلہ سمجھا جا رہا ہے اسی لیے جرمن حکومتی اتحاد میں شامل دو جماعتوں گرین پارٹی اور فری ڈیموکریٹس نے اس معاملے پر ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔
وزیر اقتصادیات ہیبک کا تعلق گرین پارٹی سے ہے جبکہ وزیر خزانہ کرسچن لِنڈنر فری ڈیمو کریٹس کی قیادت کرتے ہیں۔ اب ہیبک موجودہ صورتحال کو اجارہ داری کے خلاف قوانین میں اصلاحات کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ان کی اصلاحات کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ حکام کو چند بڑی کمپنیوں کے زیر تسلط بازاروں میں مداخلت کی اجازت دی جائے چاہے وہاں مسابقتی قانون کی کوئی خلاف ورزی نہ بھی ہو۔
جرمن وزارت اقتصادیات کے مطابق یہ ثابت کرنا تقریبا ناممکن ہے کہ چند کمپنیوں نے ملی بھگت سے ایندھن کی قیمتوں میں اضافے پر اتفاق کیا ہے۔
دوسری جانب، ماہرین کا خیال ہے کہ ہیبک کی سخت اصلاحات کے نتیجے میں چند کمپنیاں اپنے کاروبار کی جزوی بندش پر مجبور ہو سکتی ہیں۔
ہیبک کے منصوبے کا ایک اور اہم نکتہ ان قانونی رکاوٹوں کو کم کرنا ہے جوکمپنیوں کے خلاف اضافی منافع خوری ثابت کرنے کے لیے درکار ہیں۔ ان کمپنیوں کے خلاف منافع خوری کا ثبوت مہیا کرنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔
اس سلسلے میں ہیبک کے منصوبے کا تیسرا حصہ تحقیقات کو مزید وسعت دینا اور مؤثر بنانا ہے۔ اجارہ داری کے خلاف حکام کو تحقیقات کے لیے براہ راست نئے ضابطے تیار کرنے کی اجازت فراہم کرنا بھی ہے۔
علاوہ ازیں، جرمن وزیر کے مذکورہ بالا اقدامات کو مقامی سول سوسائٹی نے سراہا ہے۔ سول سوسائٹی نمائندگان کا کہنا ہے کہ اقدامات صارفین کے حقوق کی خلاف ورزی کرنے والی کمپنیوں کو باز رکھنے میں معاون ہوں گی۔ جس کا براہ راست فائدہ صارفین کو ہوگا۔