بھارت میں مسلم تنظیموں اور مساجد نے مسلمانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ حکمراں جماعت بی جے پی کے دو ترجمانوں کے پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز بیانات کے ردعمل میں جاری مظاہروں کو روک دیں۔ گزشتہ ہفتے ان مظاہروں میں دو مسلم نوجوان شہید جبکہ پولیس اہلکاروں سمیت 30 سے زیادہ افراد زخمی ہو گئے تھے۔
جماعت اسلامی ہند کے ایک سینیئر رکن ملک اسلم نے کہا کہ کہ ہر مسلمان کا فرض ہے کہ جب کوئی اسلام کی توہین کرے تو وہ اس کے خلاف کھڑا ہو لیکن امن کو برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔
رواں مہینے کے آغاز میں وزیراعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے کی سابق ترجمان نوپور شرما نے ایک نیوز چینل پر بحث کے دوران پیغمبر اسلام ﷺ کے خلاف توہین آمیز تبصرہ کیا تھا جبکہ ایک اور سابق ترجمان نوین کمار نے سوشل میڈیا پر توہین آمیز تبصرے کیے تھے جس کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی۔
بی جے پی نے دونوں اراکین کو معطل کرکے کہا تھا کہ پارٹی کسی بھی مذہب کی توہین کی مذمت کرتی ہے۔ پولیس نے دونوں اراکین کے خلاف مقدمات بھی درج کیے ہیں تاہم مشتعل مسلمان بی جے پی ترجمانوں کی گرفتاری کے لیے احتجاج کرتے رہے۔ حکومتی دباؤ پر پولیس نے متعدد ریاستوں میں 400 سے زیادہ مسلمانوں کو گرفتار کیا ہے۔ کچھ مقامات پر کرفیو نافذ ہے اور انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل ہے۔
اترپردیش کے شہر سہارنپور میں حکام نے پُرتشدد مظاہروں کو ہوا دینے کے الزام میں دو مسلمانوں کے گھر گرا دیے جبکہ الہٰ آباد (پریاگ راج) میں بھی ایک مسلمان سیاستدان جاوید احمد کا گھر مسمار کر دیا گیا۔ مسلمانوں اور انسانی حقوق کے اداروں کا کہنا ہے کہ ان مسلمانوں کو احتجاج کرنے کی سزا دی گئی ہے جبکہ ریاستی حکام کا کہنا ہے کہ یہ گھر سرکاری زمین پر تعمیر کیے گئے تھے۔
2014ء میں وزیراعظم مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارتی مسلمان ہندو تنگ نظری، انتہا پسندی اور تعصب کا شکار ہیں۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ بی جے پی اس نظریے کو فروغ دے رہی ہے کہ بھارت اب ایک ہندو ریاست ہے اور وہ اپنے مخالفین کے خلاف بے رحمانہ کارروائی بھی کرتی ہے۔