کیا اقوام عالم جوہری ہتھیاروں کے حصول کی نئی دوڑ میں شامل ہورہی ہیں ؟

18

سویڈن کے دارالحکومت اسٹاک ہوم میں قائم اور عالمی امن پر تحقیق کرنے والے بین الاقوامی ادارے نے اقوام عالم کے مابین جوہری ہتھیاروں کے حصول کی ایک نئی دوڑ کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔

 سپری نامی ادارے کے مطابق اس دوڑ میں چین تیزی سے آگے بڑھتا جا رہا ہے۔

بین الاقوامی سطح پر جوہری ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں تیزی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ  ایٹمی اسلحے کی مخالفت کرنے والے کارکن اپنی جدوجہد میں اکیلے ہوتے جارہے ہیں۔ وہ لوگ جو اس اقدام کی حمایت کرتے ہیں ان کی تنہائی صاف نظر آنے لگی ہے۔ اقوام عالم کہ نزدیک ایٹمی ہتھیاروں کا حصول ہی ان کی بقاء کی ضمانت ہے۔

صرف چھ ماہ قبل جرمنی میں یہ لگتا تھا کہ  عام شہریوں کی اکثریت امن کے سرگرم حامیوں ساتھ ہے۔ گزشتہ دنوں جرمنی میں ہونے والے عام انتخابات میں بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی سیاسی جماعتوں نے مل کر حکومت تشکیل دی تو چانسلر اولاف شولز کی قیادت میں بننے والی نئی وفاقی حکومت کا ہدف تھا کہ جرمنی کو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہونا چاہیے۔تاہم، یہ خیال اس وقت ہوا ہوگیا جب روسی صدر پیوٹن نے روس یوکرین کے مابین جاری جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی۔

جرمنی میں ہونے والے ایک حالیہ سروے کے مطابق 52 فیصد جرمن شہری اس بات کے حامی ہیں کہ جرمنی میں امریکی جوہری ہتھیار موجود رہنا چاہییں۔اس سے قبل 2021ء میں کرائے گئے سروے میں ایسے رائے دہندگان کی شرح صرف 14 فیصد رہی تھی۔

مزید پڑھیں:  ساس کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بناکر آگ لگانے والا ملزم گرفتار

سویڈن میں قائم سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ نے اپنی پیر 13 جون کو جاری کردہ ایک تازہ رپورٹ میں عالمی سطح پر جوہری ہتھیاروں کی ایک نئی دوڑ کے خلاف خبردار کیا ہے۔

 اس رپورٹ کے مطابق عشروں تک اپنے جوہری ہتھیاروں میں کمی کے بعد اب تمام ایٹمی طاقتیں اپنے نیوکلیئر وارہیڈز پر اور ان کے استعمال کے لیے درکار ڈلیوری سسٹمز پر بہت زیادہ مالی وسائل خرچ کر رہی ہیں۔اس عسکری سرمایہ کاری میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے ان میزائلوں، جنگی بحری جہازوں، آبدوزوں اور جنگی طیاروں کا حصول بھی شامل ہے، جن کے ذریعے جوہری ہتھیاروں سے حملے کیے جا سکتے ہوں۔

واضح رہے، سپری (SIPRI) کے محقق ہانس کرسٹینسن کہ جو (امریکی سائنسدانوں کی فیڈریشن کے نیوکلیئر انفارمیشن پروجیکٹ کے ڈائریکٹر بھی ہیں ) ان کے ساتھیوں نے جوہری ہتھیاروں سے لیس ممالک کے پاس موجود ایٹمی اسلحے اور ان میں کی جانے والی سرمایہ کاری کے بارے میں برسوں تک چھان بین کی ہے۔

 

 

 

ان کا کہنا ہے  کہ اس وقت پوری دنیا میں 12 ہزار 705 ایٹمی ہتھیار موجود ہیں، جن میں سے 90 فیصد سے زائد صرف دو ممالک روس اور امریکہ کے پاس ہیں۔

عالمی سطح پر ایسے ہتھیاروں کی دوڑ میں جو ایک ملک باقی سب ایٹمی طاقتوں سے مختلف اور تیز رفتاری سے کام کرتا نظر آتا ہے وہ چین ہے۔

یاد رہے، سپری کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تک روس اور امریکہ کے پاس بالترتیب  4477 اور 3708 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ ان دو سب سے بڑی ایٹمی طاقتوں کے بعد اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے لحاظ سے چین 350 وارہیڈز کے ساتھ تیسرے، فرانس 290 ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ چوتھے اور برطانیہ اپنے 180 نیوکلیئر وارہیڈز کے ساتھ پانچویں نمبر پر تھا۔

مزید پڑھیں:  آسٹریلیا میں پولیس پر گھات لگاکر حملہ، دو افسران سمیت 6 ہلاک

علاوہ ازیں، جنوبی ایشیا کے دو روایتی حریف ہمسایہ ممالک پاکستان اور بھارت بھی اعلانیہ ایٹمی طاقتیں ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں اسلام آباد کو نئی دہلی پر معمولی برتری حاصل ہے۔ سپری کے مطابق پاکستان کے پاس 165 نیوکلیئر وارہیڈز ہیں اور بھارت کے پاس 160 ہتھیار موجود ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.