بیس سالوں سے، امریکی فوج نے گوانتانامو بے میں قیدیوں کے ساتھ کیے گئے سلوک پر سختی سے پردہ ڈالے رکھا۔
ان 20 سالوں میں گارڈز کے ساتھ جدوجہد کرنے والے قیدیوں کے ساتھ سلوک، بھوک ہڑتال کرنے والوں سے نمٹنے، قیدیوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر رکھنے اور ان کے ساتھ کیے جانے والے برتاؤ کی کوئی تصویر ریلیز نہیں کی گئی۔
لیکن2011 میں وکی لیکس نے خفیہ دستاویزات کے ساتھ کچھ قیدیوں کی خفیہ تصاویر بھی جاری کیں، ساتھ ہی وکلاء نے جیل میں قید اپنے مؤکلوں کی کچھ تصاویر بھی فراہم کیں جنہیں ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے لیا تھا۔
لیکن 11 ستمبر 2001 کے حملوں کے چند مہینوں بعد گوانتاناموبے میں قیدیوں کی آمد شروع ہونے کے بعد سے ان قیدیوں کی چند دیگر واضح تصاویر اب منظر عام پر آئی ہیں۔
فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کا استعمال کرتے ہوئے، نیویارک ٹائمز نے نیشنل آرکائیوز سے ان پہلے قیدیوں کی تصاویر حاصل کی ہیں جنہیں افغانستان سے جنگ کے وقت کیوبا کی جیل میں لایا گیا تھا۔
اس سال ریلیز کی گئی یہ تصاویر فوجی فوٹوگرافروں نے سینیئر افسران کو دکھانے کے لیے لی تھیں، جن میں سربراہ ڈونلڈ ایچ رمزفیلڈ جو کہ اس وقت کے وزیر دفاع تھے، شامل ہیں۔
بصری بیانیہ کو منظم کرنے کی مشق 11 جنوری 2002 کو قیدیوں کے اڈے پر پہنچنے کے پہلے دن سے شروع ہوئی۔ فوج نے سی این این اور میامی ہیرالڈ کے دو نیوز فوٹوگرافروں کو تاریخ کی تصویر کشی کرنے سے روک کر دیا،وہ پہلے قیدیوں کو آتے دیکھ تو سکتے تھے لیکن انہیں اپنے کیمرے پیچھے چھوڑنا پڑے۔
اس کے بجائے، تقریباً ایک ہفتہ بعد ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ نے کیمپ ایکس رے میں پہلے 20 قیدیوں کی اپنے گھٹنوں کے بل ایک تصویر جاری کی، یہ عارضی جیل کیمپ تھا جہاں آپریشن کے ابتدائی مہینوں میں قیدیوں کو رکھا گیا تھا۔ اسے بحریہ کے ایک فوٹوگرافر نے لیا تھا جو ابتدائی طور پر صرف پینٹاگون کے سربراہان کی نظروں کے لیے تھی۔
بش انتظامیہ کی طرف سے 9/11 کے بعد کی ایک تشریح نے پینٹاگون کو 20 مردوں کی بیڑیوں میں اور گھٹنوں کے بل تصویر جاری کرنے کی اجازت دی کیونکہ ان کے چہرے نظر نہیں آ رہے تھے۔
لیکن اس تصویر نے پینٹاگون کے اس پیغام کو بھی تقویت بخشی کہ گوانتاناموبے میں جن مردوں اور لڑکوں کو لایا گیا تھا، ان میں سے تقریباً 780، سب جارج ڈبلیو بش کے دور صدارت میں پکڑے گئے تھے، “سب سے زیادہ خطرناک” تھے۔
وقت کے ساتھ، ریکارڈ نے ظاہر کیا کہ یہ سچ نہیں تھا۔ اب تک صرف 18 زیر حراست افراد پر الزام عائد کیا گیا تھا، اور صرف پانچ کو فوجی عدالت نے سزا سنائی ہے۔ دس زیر حراست افراد ابھی بھی مقدمے کی سماعت میں ہیں، جن میں وہ مرد بھی شامل ہیں جن پر 11 ستمبر کے حملوں کا الزام ہے۔
صدر باراک اوباما نے جیل کو بند کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن کیپٹل ہل پر ریپبلکنز کی مخالفت کے باعث اسے روک دیا گیا۔
پے در پے انتظامیہ نے وہاں رکھے ہوئے مردوں کی تعداد کو کم کرنے کی کوشش کی۔ 37 قیدیوں کے علاوہ باقی سب غائب ہو چکے ہیں، کچھ کو غلطی سے امریکی فوج اور انٹیلی جنس کے جال میں پھنس جانے کے طور پر رہا کر دیا گیا اور دوسروں کو القاعدہ اور طالبان کے سپاہی سمجھتے ہوئے رہا کیا گیا۔
اگر اس مجموعے میں موجود تصویریں آج نیوز فوٹوگرافروں نے لی ہوتیں تو گوانتاناموبے پر فوج کی طرف سے عائد کردہ سنسر شپ سے کوئی بھی نہ بچ پاتا۔
ایک تصویر میں نوجوان میرین کی آنکھوں کو پہلے قیدی کے چہرے کا مطالعہ کرتے دکھایا گیا ہے۔ تصاویر میں معمول کے حفاظتی اقدامات دکھائے گئے ہیں۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ بہت سے مرد کتنے کمزور اور غذائیت کی قلت کا شکار تھے، اور یہ کہ فوجی ہسپتال کے خیمے کے اندر ان کی کلائیوں اور ٹخنوں میں بیڑیاں ڈالی گئی تھیں۔
سب سے زیادہ ڈرامائی تصویروں میں سے ایک یہ ظاہر کرتی ہے کہ فوج نے اپنی پہلی قیدیوں کی پرواز کے دوران کس طرح کے نئے اقدامات کیے جو قیدیوں کو گوانتاناموبے لے کر گئی۔
ہوائی جہاز میں فوجی فوٹوگرافر جیریمی لاک کے مطابق، ایک شخص نے آنکھوں پر سے عارضی پٹی نکالنے کی کوشش کی تو انہوں نے اسے ڈکٹ ٹیپ سے باندھ دیا۔
سیکیورٹی فورسز میں سے کسی ایک نے ڈکٹ ٹیپ والے قیدی کے پاس بیٹھے ہوئے آدمی کے بندھئ ہوئے، دستانوں سے ڈھکے ہاتھ میں امریکی جھنڈا لگا دیا، اور ایک یادگاری تصویر کھینچی۔
مسٹر لاک نے اس تصویر کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا، تاکہ اس کے مالکان دیکھیں کہ کیا کیا گیا ہے۔
ڈکٹ ٹیپ والا قیدی وہی آدمی ہے جسے اسکول بس میں جانوروں کی طرح سوار کیا گیا، جو اسے گوانتاناموبے کے پار اس جگہ پر لے گئی جہاں اسے رکھا جائے گا، کیمپ ایکس رے۔
اس وقت ڈیوٹی پر موجود امریکی افواج نے بتایا کہ اس دن صرف ایک شخص مصنوعی ٹانگ کے ساتھ آیا تھا، اور جیل کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ملا فضل محمد مظلوم تھا، جو کہ 11 ستمبر کے حملے کے وقت شمالی افغانستان میں نائب وزیر دفاع اور طالبان افواج کا کمانڈر تھا۔
اسے 13 سال بعد آرمی کے سارجنٹ Bowe Bergdahlکے قیدیوں کے تبادلے میں قطر کی تحویل میں رہا کیا گیا تھا۔ گزشتہ سال افغان حکومت کے طالبان کے قبضے میں آنے کے بعد وہ عسکریت پسند حکومت میں نائب وزیر دفاع بن گئے۔
C.I.A ایجنٹس نے القاعدہ کے مشتبہ سینئر ارکان سے پوچھ گچھ اور ان پر تشدد کرنے کے لیے اس پروگرام کے پہلوؤں کو دوبارہ استعمال کیا ۔
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بہتر پوچھ گچھ مہینوں بعد شروع ہوئی، جب سینکڑوں قیدیوں کو گوانتانامو بے لایا گیا تھا۔