یوکرینی صدر زیلنسکی نے بحیرہ اسود کی بندرگاہوں پر روس کی جانب سے بحری ناکہ بندی ختم کروانے کے لیے عالمی دباؤ کا مطالبہ کیا ہے جس کے سبب یوکرینی اناج کی برآمدات رکنے سے خوراک کے عالمی بحران کا خطرہ پید ہوگیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق روس کے یوکرین پر حملے سے قبل یوکرین سورج مکھی کا تیل پیدا کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا اور گندم کا ایک بڑا برآمد کنندہ تھا تاہم، ناکہ بندی کی وجہ سے لاکھوں ٹن اناج کی برآمدات تعطل کا شکار ہیں۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے سنگاپور میں شنگریلا ڈائیلاگ سیکیورٹی سربراہی اجلاس سے ایک ویڈیو خطاب میں کہا کہ دنیا کو ایشیا اور افریقہ کے بہت سے ممالک میں شدید غذائی بحران اور قحط کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کھانے پینے کی اشیاء کی قلت سیاسی انتشار کا باعث بنے گی جس کے نتیجے میں بہت سی حکومتوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور بہت سے سیاستدانوں کو بے دخل کیا جا سکتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ خطرہ عالمی منڈیوں اور بعض ممالک میں بنیادی مصنوعات کی آسمان کو چھوتی قیمتوں کو دیکھ کر واضح ہے یہ روس کی کارروائیوں کا براہ راست نتیجہ ہے۔
دریں اثناء، زیلنسکی نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ بین الاقوامی قانون کا پوری قوت سے نفاذ بحال کریں جو 24 فروری کے حملے سے پہلے موجود تھا۔
یاد رہے، روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اور ان کے ترک ہم منصب نے رواں ہفتے انقرہ میں یوکرینی اناج کی برآمدات کے لیے محفوظ راستہ حاصل کرنے پر بات چیت کی، تاہم اس بات چیت میں تاحال کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔
اس حوالے سے یوکرینی صدر کا کہنا تھا کہ یوکرین اس وقت ریل کے ذریعے ماہانہ 20 لاکھ ٹن سے زائد اناج برآمد کر رہا ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔
انہوں نے روس پر الزام پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اناج کی قیمتوں کو اونچا کرنے کی کوشش کر رہا ہے، اس نے توانائی کی قیمتوں کے ساتھ بھی ایسا ہی کیا ہے۔