بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے دو سالہ انتخابات کے لیے گزشتہ روز ووٹ ڈالے گئے۔ 57 نشستوں کے لیے اس ضمنی انتخاب میں 47 اراکین پہلے ہی بلامقابلہ منتخب ہو چکے ہیں جبکہ آج 16 سیٹوں کے لیے ووٹنگ ہوئی۔ اس وقت بی جے پی کے تین مسلم اراکین راجیہ سبھا کے رکن ہیں لیکن چند دنوں میں تینوں کی مدت ختم ہو رہی ہے اور پارٹی نے انہیں دوبارہ امیدوار نہیں بنایا۔ لہٰذا پارلیمنٹ اور حکومت دونوں میں ہی حکمراں جماعت میں کوئی بھی مسلم نمائندہ نہیں رہے گا۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارتی صدر اپنے خصوصی اختیارات کے تحت راجیہ سبھا کی سات خالی نشستوں میں سے کسی پر کسی مسلم امیدوار کو نامزد کرتے ہیں یا نہیں۔ تاہم سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ ہندو قوم پرست حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی جس طرح ہندوتوا کی سیاست کو فروغ دینے اور اسے مستحکم کرنے کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے اس کی وجہ سے شاید ایسا ممکن نہ ہو سکے۔
ان مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ حقیقت بھی سامنے رکھنا چاہیے کہ اس وقت قابل ذکر مسلم آبادی والی 15 ریاستوں میں بی جے پی کی حکومت ہے لیکن ان میں ایک بھی مسلمان کابینہ کا وزیر نہیں۔ مبصرین کا خیال ہے کہ پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی نمائندگی میں مزید کمی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اور اس کی مربی تنظیم آر ایس ایس کی دیرینہ حکمت عملی کا نتیجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سب سے بڑی اقلیت کو سیاسی نظام سے الگ تھلگ کرنا یہ بتاتا ہے کہ بھارت میں سیکولرازم، تنوع اور شراکت داری جیسے رہنما اصول سیاست سے غائب ہوتے جا رہے ہیں اور بی جے پی ملک کو اپنی گرفت میں پوری طرح لینے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتی ہے۔
ترنمول کانگریس کی رہنما اور لوک سبھا کی رکن مہوا موئترا کہتی ہیں کہ دنیا بھر میں فیصلہ سازی کے عمل میں تنوع پر زور دیا جاتا ہے تاکہ زیادہ بہتر فیصلے اور نتائج سامنے آ سکیں۔ لہٰذا 20 کروڑ سے زیادہ مسلمانوں کی نمائندگی کو نظرانداز کرنا کسی بھی صورت میں درست نہیں۔