جنوبی امریکی ملک بولیویا کی ایک عدالت نے گزشتہ روز ملک کی سابق صدر جینین اینیز شاویز کو 2019ء میں بغاوت کا قصوروار ٹھہراتے ہوئے انہیں دس برس قید کی سزا سنا دی ہے۔
54 سالہ سابق صدر جینین اینیز کو آئین کے خلاف فیصلے کرنے اور فرائض سے غفلت برتنے کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ اینیز نے 2019ء کے صدارتی انتخابات کے بعد ملک کے آئینی و جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کی۔
سابق صدر اینیز کو مارچ 2021ء میں دہشت گردی، بغاوت اور سازش جیسے الزامات کے تحت حراست میں لیا گیا تھا تب سے وہ قید میں ہیں۔ انہیں عدالتی کارروائی میں شرکت کی بھی اجازت نہیں دی گئی اور وہ جیل سے ہی مقدمے کی پیروی کرتی رہیں۔ جج کے سامنے اپنے آخری بیان میں انہوں نے کہا کہ اس وقت وہی کیا جو انہیں کرنا چاہیے تھا۔ انہوں نے آئینی ذمہ داریوں کے مطابق عہدہ صدارت سنبھالا۔
تقریباً 14 برس کے اقتدار کے بعد 2019ء میں چوتھی مدت کے لیے پھر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے سوشلسٹ رہنما اور سابق صدر ایوو موریلس پر دھاندلی کے الزام میں احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے۔ امریکی تنظیم او ایس نے تقریباً 100 صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں انتخابی خلاف ورزیوں کی تفصیل پیش کی۔ سابق صدر موریلس کو فوج کے دباؤ اور مظاہروں کے باعث استعفیٰ دینا پڑا تھا۔
اس کے دو دن بعد جینین اینیز شاویز نے جو اس وقت سینیٹ کی نائب صدر تھیں، آئین کے مطابق خود اقتدار سنبھال لیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے ایک سینیئر محقق سیزر منوز نے ملک کی اعلیٰ عدالتوں سے عدالتی کارروائی کے طریقِ کار کا جائزہ لینے کا مطالبہ کیا ہے۔