بھارتی سپریم کورٹ کے دو رکنی بنچ کے جج توہینِ پیغمبر ﷺ کی مرتکب گستاخ نُپور شرما کی سخت سرزنش کرنے پر انتہاپسند ہندؤں کے عتاب کا شکار بنے ہوئے ہیں۔
گزشتہ جمعہ کو جسٹس جے بی پردی والا اور جسٹس سوریہ کانت پر مشتمل دو ججوں کے بنچ نے نپور شرما کی وہ درخواست مسترد کر دی تھی جس میں انہوں نے ملک کی کئی ریاستوں میں اُن کے خلاف دائر مقدمات کو یکجا کرکے دہلی منتقل کرنے کی التجا کی تھی۔
جسٹس سوریہ کانت نے سماعت کے دوران کہا تھا کہ نپور شرما کو اپنے متنازع بیان پر پورے ملک سے معافی مانگنی چاہیے، اس وقت ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے لیے نپور شرما تن تنہا ذمے دار ہیں۔ ایک منہ پھٹ نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔ انہوں نے نپور شرما کو ملک کے لیے خطرہ بھی قرار دیا تھا۔
اعلیٰ عدالت کی جانب سے نپور شرما کے خلاف سخت ریمارکس آنے پر انتہاپسند ہندو بھڑک اٹھے اور انہوں نے سوشل میڈیا پر ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ انتہاپسند ہندو صارفین نے سوشل میڈیا پر ملک کی سب سے بڑی عدالت کے ججوں پر ذاتی حملے شروع کر دیے۔ کسی نے اعلیٰ عدالت میں ججوں کی تعیناتی کے طریق کار کو فرسودہ اور اقربا پروری کا شکار قرار دیا تو کسی نے طنز کیا کہ اسلامی جمہوریہ ہند میں آپ کا خیرمقدم ہے اور کسی نے ججوں کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا۔ ایک ریٹائرڈ سینیئر جج نے کہا کہ ان ججوں کو تقریر کرنے کا شوق ہے تو وہ سیاستدان بن جائیں۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس جے بی پردی والا نے ججوں پر ذاتی نوعیت کے حملوں کے بعد سوشل میڈیا کے استعمال پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سوشل میڈیا کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے ملک میں ضابطے بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس پردی والا نے کہا کہ ججوں پر ذاتی حملوں سے ایک خطرناک صورتحال پیدا ہو جائے گی جس سے قانون کی حکمرانی کو شدید نقصان پہنچے گا۔ جسٹس پردی والا کا کہنا تھا کہ بھارت ابھی ایک مکمل اور پختہ جمہوریت نہیں ہے، یہاں اکثر قانونی اور آئینی معاملات کو سیاسی رنگ دینے کے لیے سوشل میڈیا کو استعمال کیا جاتا ہے۔