یوکرین جنگ کے تناظر میں روسی خام تیل پر پابندی کا فیصلہ یورپی یونین کے لیے کڑا امتحان ثابت ہو رہا ہے۔ یورپی کمیشن نے روسی خام تیل کی درآمد پر پابندی کی تجویز چار ہفتے پہلے پیش کی تھی۔
یورپی سفارتکاروں کی کوشش تھی کہ اس حوالے سے یورپی سربراہی اجلاس سے قبل سمجھوتا طے کر لیا جائے تاہم ایسا ممکن نہ ہو سکا۔ یورپی یونین کا دو روزہ اجلاس پیر 30 مئی کو شروع ہوا اور گزشتہ روز اختتام پذیر ہو گیا۔
حالیہ اجلاس میں پابندیوں پر بحث کا یہ چھٹا مرحلہ تھا جس میں تجویز پیش کی گئی کہ روس سے زمین اور سمندر کے راستے خام اور ریفائن تیل کی فراہمی پر مکمل پابندی عائد کر دی جائے۔ ماہرین کے مطابق تیل پر مکمل پابندی روس کے لیے خاصا بڑا مالی دھچکا ہو گا۔
اس پابندی کی سب سے زیادہ مخالفت ہنگری کی جانب سے کی گئی ہے جس کا مؤقف ہے کہ روسی تیل کی برآمد روکنے سے چاروں جانب خشکی سے گھرے (لینڈ لاک) ملک کی معاشی سرگرمیاں تھم جائیں گی۔ سلوواکیہ اور چیک جمہوریہ کی جانب سے بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا گیا جن کا انحصار جنوبی دروزبا پائپ لائن کے ذریعے پہنچنے والے روسی خام تیل پر ہے۔
یورپ روسی تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ یورپ کو تقریباً 47 لاکھ بیرل تیل یومیہ فراہم کیا جاتا ہے۔ 24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد سے یورپی ممالک روس کو تیل خریداری کی مد میں 30 بلین یورو ادا کر چکے ہیں۔ یورپی یونین کا روسی تیل پر انحصار 26 فیصد کے قریب ہے اس کے علاوہ 40 فیصد روسی گیس کے خریدار بھی یورپی یونین کے ممالک ہیں۔ پائپ لائن کے ذریعے یورپی ممالک کو روسی تیل سستا حاصل ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ روسی خام تیل پر مکمل پابندی کے لیے یورپی یونین کے تمام 27 ممالک کا متفق ہونا لازمی ہے۔ بعض سفارتکاروں کا خیال ہے کہ روس کے خلاف اب تک عائد کی گئی پابندیاں مجموعی طور پر کمزور نظر آتی ہیں۔