روسی تیل کی برآمد کا معاملہ، کیا یورپی یونین کی مشکلات میں اضافہ ہورہا ہے ؟

15

یورپی یونین یوکرین پر روسی حملے کے بعد روس سے آنے والے تیل پر پابندی لگانے کے بعد مشکلات کا شکار ہیں۔

روسی تیل پر پابندی کے لیے یورپی یونین کے تمام ستائیس ملکوں کو متفق ہونا ضروری ہے۔ پابندیوں کی سب سے زیادہ مخالفت ہنگری کی جانب سے کی گئی ہے۔

ہنگری کا مؤقف ہے کہ روسی تیل کی برآمد کو فوری طور پر روک دینے سے چاروں جانب سے خشکی میں گھرے اس ملک کی معاشی سرگرمیاں زمین بوس ہو جائیں گی۔

ہنگری کی مرکزی حکومت کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی صورت میں تیل و گیس کی فراہمی ممکن نہیں رہے گی۔

ہنگری کی طرح سلوواکیہ اور چیک جمہوریہ کی جانب سے  بھی ایسے ہی خدشات کا اظہار کیا گیا ہے۔ ہنگری کی طرح ان دونوں ملکوں کا انحصار جنوبی درُوزبا پائپ لائن پر ہے جس کے ذریعے روسی تیل کی سپلائی ان ملکوں تک پہنچتی ہے۔

یورپ روسی تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔

معروف تحقیقی ادارے کے مطابق چوبیس فروری کو یوکرین پر چڑھائی کے بعد سے یورپی ممالک روس کو تیل خریدنے کی مد میں تیس بلین یورو ادا کر چکے ہیں۔ قریب قریب سینتالیس لاکھ بیرل روزانہ کی بنیاد پر  یہ تیل یورپ کو فراہم کیا جاتا ہے۔ یورپی یونین کا روسی تیل پر انحصار چھبیس فیصد کے لگ بھگ ہے۔ اس کے علاوہ چالیس فیصد روسی گیس کے خریدار بھی یورپی یونین کے ممالک ہیں۔

 بعض سفارتکاروں کا خیال ہے مجموعی طور پر پابندیاں کمزور دکھائی دیتی ہیں۔ جرمنی کا کہنا ہے کہ وہ رواں برس کے آخر  تک روسی تیل پر مکمل پابندی عائد کر سکتا ہے۔ مبصرین کے مطابق ایک مشترکہ کمپرومائز کی صورت میں بعض ممالک کو غیر ضروری پابندیوں اور جرمانوں کا سامنا بھی ہو سکتا ہے، جو مناسب نہیں ہو گا۔

مزید پڑھیں:  غزہ میں اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں تیزی؛2 صحافیوں سمیت31 فلسطینی شہید

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.